'سارے سیاسی کھیل کے ماسٹر مائنڈ نواز شریف ہیں'

‘سارے سیاسی کھیل کے ماسٹر مائنڈ نواز شریف ہیں’

لاہور — پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھے جانے والے شہر لاہور میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رابطوں اور حکومتی اتحادیوں کو ساتھ ملانے کی کوششوں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے امکانات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

بدھ کی دوپہر شہباز شریف کی رہائش گاہ پر سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کی اہم بیٹھک کے بعد بدھ کی ہی شب سابق صدر آصف زرداری نے حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کو عشائیے پر مدعو کر رکھا ہے۔

دریں اثنا مولانا فضل الرحمٰن نے بھی چوہدری برادران سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔

منگل کی شب شہباز شریف بھی لیگی وفد کے ہمراہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملنے بلاول ہاؤس لاہور گئے تھے۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حزبِ اختلاف کے پاس وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے نمبر گیم پوری ہوگئی ہے جب کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد لانے کا طریقۂ کار اب موضوع بحث ہے۔

آنے والے دنوں میں پاکستانی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے ملک کے نامور صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

‘جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے نواز شریف ہیں’

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جاری سیاسی کھیل کے ماسٹر مائنڈ نواز شریف ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) نے مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بغیر ہی نمبر گیم پوری کر لی ہے۔

اُن کے بقول پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے رہی ہے، تاہم پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ اس عمل میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو بھی ساتھ رکھا جائے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ابتداً یہ سمجھتی تھی کہ مسلم لیگ (ق) اُن کا ساتھ نہیں دے گی، لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت نے (ن) لیگ کو قائل کیا کہ چوہدری برادران کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔

حامد میر کے بقول پیپلزپارتی چاہتی ہے کہ مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی تبدیلی آئے جس کے لیے جوڑ توڑ کا ٹاسک آصف زرداری کو دیا گیا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو بدلا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ہلچل شروع ہو گئی ہے اور لاہور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگوکرتے ہوئے سلیم بخاری کہ کہنا تھا کہ جس رفتار سے حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے لوگ آپس میں مل رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو گا۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی رہائیش گاہ آمد، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل رحمان، سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی موجودہ pic.twitter.com/0gPdlKYXGj— PPP (@MediaCellPPP) February 23, 2022

اُن کے بقول ایسا لگتا ہے کہ عدمِ اعتماد اب مہینوں کی نہیں بس دنوں کی بات ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ سیاسی ملاقاتوں اور رابطوں میں تیزی اِس لیے آئی ہے کیوں کہ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور ایسے میں حزبِ اختلاف پر مزید سختیاں کی جا رہی ہیں، مقدمات درج ہو رہے ہیں اور جیلوں میں ڈالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

‘اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ ہدف عمران خان ہیں’

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ برسرِ اقتدار جماعت کے اندر بھی ایک بے چینی ہے۔ یہ سارے عوامل مل کر حزبِ اختلاف کی تحریک کو تیز کیے ہوئے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے کئی معاملات پر اختلافات ہیں، ان کے منشور بھی الگ الگ ہیں ، لیکن فی الحال ان سب کا ہدف وزیرِاعظم عمران خان ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے میں حکومتی اتحادیوں کا کردار اہم ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حزبِِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اتحادیوں کو توڑ پاتی ہیں یا نہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف (فائل فوٹو)
سابق وزیر اعظم نواز شریف (فائل فوٹو)

اُن کے بقول جب تک اپوزیشن جماعتوں کی نمبر گیم پوری نہیں ہو گی، اس وقت تک تحریکِ عدم اعتماد نہیں آئے گی۔

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت کے ناراض اراکین جہانگیر ترین کی قیادت میں سرگرم ہیں، لہذٰا حکومت کو اپوزیشن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں بھی اتحاد پیدا کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔

سینئر صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جب بھی سیاسی لوگ آپس میں بیٹھتے ہیں اِس طرح کے مشاوتی عمل میں کچھ نہ کچھ ضرور پیش رفت ہوتی ہے۔ اُن کے مطابق حالیہ ملاقاتیں یہ بتاتی ہیں کہ فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔

سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کے سیاسی قائدین کی ملاقاتوں کے نتائج کے لیے کچھ دِن انتظار کرنا ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ملاقاتوں میں جتنی تیزی آ گئی ہے اُس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلے گا۔

‘اس دفعہ کوئی اشارہ نہیں ہے’

اپوزیشن کو کیا مقتدر حلقوں کی بھی حمایت حاصل ہے؟ اس سوال کے جواب میں حامد میر کہتے ہیں کہ ماضی میں ایسی تحاریک اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر پیش ہوتی تھیں، لیکن فی الحال ایسا نہیں لگ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے پیچھے ہے۔

اُن کے مطابق حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے قائدین پہلے لاہور میں اپنا ہوم ورک مکمل کریں گے۔ سیاسی چال کے تمام خدوخال مکمل کرنے کے بعد پھر اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا۔ اُن کے بقول جتنے دِن لاہور میں لگتے جا رہے ہیں اِس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایکشن پلان ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ نہیں ہے لیکن کسی کے سر سے ضرور اُٹھ گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک تاثر تھا اور بدستور موجود ہے کہ عمران خان صاحب کو لانے والے شاید اب اس طرح سے اُن کے ساتھ نہیں جس کے ماضی میں دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔

اُن کے بقول ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کمزور ہوئے تھےاور اب یہ خلیج آہستہ آہستہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔

مجیب الرحمان شامی کی رائے میں پاکستان میں بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ البتہ ایک بات زیادہ زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ وہ جو ایک صفحے کی باتیں ہوتی تھیں، شاید اب وہ صفحہ ایک نہیں رہا۔

اُن کے بقول اسی موقعے سے اپوزیشن جماعتیں فائدہ اُٹھانا چاہتی ہیں، لہذٰا اب حکومت کو تنِ تنہا اپوزیشن کی اس سیاسی مہم جوئی سے نمٹنا ہو گا۔

سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حکمران اپنے آپ کو مضبوط سمجھتا ہے۔ جہاں تک عمران خان صاحب کی بات ہے۔ جب سے وہ حکومت میں آئے ہیں ایک صفحے کی بات کی جاتی ہے۔

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کی حمایت مشروط ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو متنازع نہیں بناتے۔ لہذا عمران خان کو جو حمایت پہلے حاصل تھی وہ اَب نہیں ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان بلاشبہ اپوزیشن جماعتوں کی ان سرگرمیوں سے پریشان ہیں، اسی لیے آئے روز ترجمانوں کے اجلاس بلائے جا رہے ہیں اور چھٹی کے روز پیکا جیسے متنازع آرڈیننس جاری کیے جا رہے ہیں۔

اُن کے بقول ایک جانب عمران خان روس میں صدر پوٹن سے ملاقات کر رہے ہوں گے تو دوسری جانب اُن کی حکومت کے دو وزرا مونس الہٰی اور طارق بشیر چیمہ آصف زرداری کے عشائیے میں شریک ہوں گے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

اپوزیشن کی ان سرگرمیوں کے باوجود حکومت پراُمید ہے کہ اپوزیشن کی یہ سیاسی مہم جوئی رائیگاں جائے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ایک بیان میں اپوزیشن کو 24 گھنٹوں میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کا چیلنج کر دیا ہے۔

بدھ کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن نے حکمراں جماعت کے تین اراکین اسمبلی کو ساتھ دینے کے لیے بھاری رقم کی پیشکش کی۔

“ایک ہفتہ ہوگیا ہے اپوزیشن کو طے کیے ہوئے کہ عدم اعتماد لائیں گے لیکن ابھی تک ان کی جرت نہیں ہوئی کہ تحریک عدم اعتماد لا سکیں۔ میرا ان کو چیلنج ہے کہ یہ اگلے 24 گھنٹے میں عدم اعتماد لائیں ان کو لگ سمجھ جائے گی کہ ان کے ساتھ ہوتی کیا ہے۔”~وفاقی وزیر اطلاعات @fawadchaudhry pic.twitter.com/buQoodtOFj— Fawad Chaudhry (Updates) (@FawadPTIUpdates) February 23, 2022

ادھر وزیرِ اعلٰی پنجاب نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ اپوزیشن کے پاس نمبر گیم پوری نہیں ہے۔ لہذٰا عدم اعتماد کا خواب اُدھورا ہی رہے گا۔