تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب کیسے ہو گا؟

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب کیسے ہو گا؟

پاکستان میں وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا خود استعفیٰ دینے کی صورت میں ملک کا نیا وزیرِاعظم یعنی قومی اسمبلی میں قائد ایوان کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اس کا طریقہ آئین اور قانون میں واضح ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کے 342 ارکان کے ایوان میں وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لیے 172 ارکان کا اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے۔

قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب اسپیکر کی جانب سے کرایا جاتا ہے۔ اور یہ انتخاب اسی طرح ہوتا ہے جیسے عام انتخابات کے بعد نئے وزیراعظم کو منتخب کیا جاتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت قائد ایوان کو قومی اسمبلی میں موجود مجموعی اراکین کی تعداد کی اکثریت کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی امیدوار وزیراعظم کے انتخاب کے دوران واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے تو رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ لینےو الے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ کرایا جاتا ہے، جس میں 172 ارکان کا ووٹ حاصل کرنے والا ایوان کا قائد بن جاتا ہے۔

قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اسپیکر پابند ہے کہ وہ صدرِمملکت کو آگاہ کرے اور سیکریٹری اسمبلی گزٹ میں اس کو شائع کرائےجس کے بعد نئے قائد ایوان کے انتخاب کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔

نئے قائد ایوان کے لیے قومی اسمبلی کے قواعد 32 سے 36 تک رہنمائی دی گئی ہے۔

ان قواعد میں لکھا گیا ہے کہ وزیرِاعظم کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جاتے ہیں جس کی جانچ پڑتال اسپیکر قومی اسمبلی کرتا ہے۔

اسپیکر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے امیدواروں کے کاغذات مسترد کردے۔ مگر اس کے لیے اسپیکر کو وجہ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی حتمی طور پر منظور ہونے کے بعد وزیرِاعظم کے انتخاب کا عمل اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔

ووٹنگ شروع ہونے سے قبل اسپیکر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرتا ہے۔ اگر دو یا دو سے زائد امیدوار ہیں تو ان کے انتخاب کے لیے اسپیکر ارکانِ اسمبلی کو الگ الگ لابیوں میں جانے کی ہدایت کرتا ہے۔جس کے بعد ارکان اس متعلقہ لابیز میں چلے جاتے ہیں جہاں قومی اسمبلی میں موجود عملہ لسٹ میں ارکان کے ناموں کے آگے نشان لگاتا ہے، بعد ازاں ایوان میں گنتی کی جاتی ہے۔

اگر وزیراعظم کے لیے ایک ہی امیدوار ہو تو اسپیکر بلامقابلہ اس کی کامیابی کا اعلان کرتا ہے جس کے بعد اسپیکر جیتنے والے امیدوار کو اعتماد کا ووٹ لینے کاکہتا ہے۔

مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟

مبصرین سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور نئی حکومت کے قیام کی صورت میں معاملات کے ایک پٹری پر چڑھنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ججوں کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ان کے بقول جس ملک میں یہ سوچ ہو وہاں مشکلات تو آتی ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر تین اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دے کر اسے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد صدر نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی تھی۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھااور اسپیکر کی رولنگ کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔ عدالت نے اسمبلیاں بحال کرکے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا حکم دیاتھا۔

اُنہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اداروں کو گالی دی جائے اور کہا جائے کہ انہیں آزادی ہے کہ وہ کسی کو کچھ بھی کہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے بظاہر تو کہا ہے کہ وہ کسی سے کوئی انتقام نہیں لیں گے ۔ لیکن جب انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی تو کہا جائے گا انتقام شروع ہو گیا ہے۔

پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری تھنک ٹینک پلڈاٹ کے صدراحمد بلال محبوب کے مطابق اگر عمران خان کے ماضی کو دیکھا جائے تو وہ چیزوں کو قبول نہیں کرتے۔ وہ محاذ آرائی، لڑائی اور دیگر چیزوں کو اپنے انداز میں چلانے پر یقین رکھتے ہیں، خواہ اس میں آئین و قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ انہیں اس کی فکر کم ہوتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ عمران خان یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیں گے، جس سے بحران مزید بڑھ سکتا ہے اور دوبارہ عدالت کی طرف جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کا مستقبل

سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اُن کے مطابق پی ٹی آئی کے لیے نئے انتخابات میں کوئی موقع نہیں ہو گا کہ وہ اکثریت حاصل کر سکے۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی مشکل سے قومی اسمبلی کی 40سے 50نشستیں حاصل کر پائے گی۔

افتحار احمد کے مطابق مہنگائی کے باعث عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کو پسند نہیں کرتی جس کا اظہار وہ عام انتخابات میں بھی کریں گے۔

البتہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی ابھی تک ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی تھی لیکن غیرملکی سازش کے بیانیے نے انہیں کسی حد تک وہ مقبولیت واپس کردی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھتی ہے اور ایک ایسا بیانیہ مرتب کرتی ہے جو لوگوں کو متاثر کرسکے تو اس کا اگلا قدم آئندہ عام انتخابات ہوں گے۔