ترقی پذیر ممالک مصنوعی ذہانت سے اپنی تقدیر کیسے بدل سکتے ہیں؟  

ترقی پذیر ممالک مصنوعی ذہانت سے اپنی تقدیر کیسے بدل سکتے ہیں؟  

مصنوعی ذہانت یعنی مشینوں کی جدید ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کے ذریعہ کام کرنے کی اہلیت نے جہاں تیزرفتار ترقی کی امکانات روشن کردیے ہیں وہیں ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک چیلنج بھی لا کھڑا کیا ہے کہ وہ پہلے سے جاری ڈیجیٹل تقسیم اور ناکافی توانائی اور انفراسٹرکچر کے ماحول میں کیسے اس جدت کا مفید استعمال ممکن بنا سکتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا بروقت استعمال ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کے لیے مجموعی پیداواری صلاحیت کو بڑھا کر انہیں معاشی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کو صنعتی اور دوسرے شعبوں میں متعارف کرنے سے نہ صرف مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

حالیہ تحقیقی رپورٹس کے مطابق سمارٹ فون سے رقوم کی ادائیگی اور نیٹ ورکنگ کی ایپلی کیشنز جیسے عام استعمال کے علاوہ تعلیم، زراعت، صحت اور ماحولیات سمیت کئی شعبوں میں تحقیق، ترسیل، اور مواصلات کے نظاموں میں بہتری سے کم آمدنی والے ملکوں کی معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے۔

ڈیٹا کانومی اشاعت نے آڈٹ اور اکاونٹنگ کی کمپنی پی ڈبلیوسی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مضمون میں کہا ہے کہ سن 2030 تک مصنوعی ذہانت کا استعمال عالمی معیشت میں 15.7 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرے گی۔

لیکن ساتھ ہی اس ٹیکنالوجی کے فوائد کو یکساں طور پر بانٹنا مشکل نظر آتا ہے ۔ اس سلسلے میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ ملازمین کی حقیقی آمدنی میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور عام طور پر عدم مساوات بڑھے گی۔

تعلیم ترقی کی کنجی اور مصنوعی ذہانت اس کا لازمی حصہ ہو گی

ماہرین کے مطابق پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی ایک بہت بڑا موقع ہے جسے ہر گز کھونا نہیں چاہیے۔

پاکستانی امریکی انفارمیشن اور سیلیولر ٹیکنالوجی کے ماہر اور سافٹ ویئر بنانے والے انجینیئر ظفرالاعظم کہتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں معیاری ، تیز تر اور دیرپا ترقی کے لیے پاکستان کے لیے مصنوعی ذہانت سے بنائے گئے نظام بہت فائدہ مند ہو سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق ایک طرف تو پاکستان میں معیاری اساتذہ کا فقدان ہے اور دوسری طرف اپنے ماحول اور سماج کے مطابق مہارت کے شعبوں میں معلومات مربوط انداز میں میسر نہیں ہیں۔

“لہذا میں سمجھتا ہوں کہ بہتر انداز میں جدید شعبوں میں تعلیم پاکستان کی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں ہونہار اور ٹیلنٹڈ لوگوں کی کمی نہیں ہےاور وہ دوسرے ملکوں میں تیار کی گئی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کو اپنے ماحول کے تحت ڈھال سکتے ہیں ۔”

ظفر الاعظم نے امریکہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اعلی تعلیم حاصل کی اور کئی عالمی کمپنیوں کے ساتھ کام کے علاوہ شکاگو میں سیاحت کے فروغ کے لیے سافٹ ویئر بھی بنایا، یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں نجی شعبہ اس میدان میں بہت کام کر سکتا ہے۔

“اگر ہم (پیٹنٹ اور کاپی رائٹس کے) قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک سے تعلیم کے شعبے کی مددگار ٹیکنالوجی خریدیں تو یہ ہماری معیشت میں بہت بڑی سرمایہ کاری ہو گی جو ہمارے طالب علموں کو تعلیم اور مہارت سے آراستہ کرکے ہماری ترقی میں اہم کردار ادا کرے کی۔”

ماحولیاتی چیلنج

ماہرین ترقی پذیر ممالک کی معاشی ترقی کے امکانات کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے منفی اثرات کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔
اس ضمن میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی لاگت ایک مسئلہ ہے جو ترقی پذیر ممالک کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے۔

ڈیٹا اکانومی کے مطابق ایک جدید نیورل نیٹ ورک کی تربیت پر ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر تک لاگت آ سکتی ہے اور 650 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر زیادہ پیچیدہ ماڈل کو تربیت دیا جائے تو اس کی زندگی کے دوران ایک عام کار سے پیدا ہونے والا کل کاربن کا اخراج تقریباً پانچ گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی میں سرمایہ کاری کرنے کی محدود صلاحیت کی وجہ سے جنوبی ممالک کو انتہائی موسم،خشک سالی، سیلاب اور آلودگی جیسی ماحولیاتی آفات کا غیر متناسب طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ٹیکنالوجی کیسے ماحولیاتی چیلنجز سنے نمٹنے میں مددگار ہو سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں ظفرالاعظم کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بنیادی طور پر کمپیوٹنگ ہے۔ ہم کسی مشین میں جتنا قابل اعتماد ڈیٹا شامل کریں گے وہ اتنی ہی درست مسائل اور ان کے حل کی نشاندہی کرے گی۔

” اس لیے ہمیں ٹیکناجی کے بہترین استعمال کے لیے علاقائی اور مقامی سطح کا ڈیٹا شامل کرنا ہوگا۔”

کیا ترقی پذیر ممالک مصنوعی ذہانت کے لیے تیار ہیں؟

تحقیقی ادارے ڈیوکس کو ایک حالیہ انٹرویو میں عالمی اقتصادی فورم کی مصنوعی ذہانت کے شعبے کی سربراہ فرتھ بٹرفیلڈ نے بتایا کہ اگرچہ حال ہی میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کے میدان میں بہت پیش رفت ہوئی ہے لیکن ابھی وہ وقت بہت دور ہے جب درمیانے درجہ کی آمدنی کے ممالک اس کے ثمرات سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو مشینوں کی تیزرفتار پیش رفت کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے کہ یہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہوگا۔ یہ تمام بیماریوں کا علاج نہیں ہے۔”تاہم انہوں نےکہا کہ دنیا کو اس قسم کی ترقی کے اثرات کے لیے تیاری ابھی سے

کرنا چاہیے۔

آکسفورڈ ان سائٹ ڈیجیٹل تبدیلیوں کے موضوع پر حکومتوں اور کمپنیوں کو تحقیق سے آگاہ کرتی ہے، اس نے اپنی سال 2021 کی آرٹیفشل انٹیلی جنس ریڈی نیس رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے ممالک میں سے تقریباً 40 فیصد قومی حکمت عملی جاری کر چکے ہیں جب کہ 9 فیصد اس کا مسودہ تیار کر رہے ہیں۔

آکسفورڈ ان سائٹ کے انڈیکس کے مطابق مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ تیار ملک امریکہ ہے۔

اقوام متحدہ نے حال ہی میں قوموں میں ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کا آغاز ڈیجیٹل اوپن سورس سافٹ ویئر اور ڈیٹا تک مساوی رسائی کی اہمیت پر زور دینے سے کیا۔

سیکرٹری جنرل ایتونیو گوتیریس نے عالمی اقتصادی تفاوت کے تناظر میں ایک “گلوبل ڈیجیٹل کومپیکٹ” پر اتفاق کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹیکنالوجی بھلائی کے لیے ایک طاقت ہے۔

ترقی میں عدم توازن اور مستقبل کی امیدیں

جہاں مصنوعی ذہانت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیش رفت نے اقتصادی فوائد کے مواقع مہیا کیے ہیں وہیں اس سے بہت سے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کیونکہ چیٹ جی پی ٹی جیسی جینریٹو ٹیکنالوجی نہ صرف ڈیٹا پر انحصار کرتی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر نیا مواد بھی پیدا کرتی ہے اور مختلف شعبوں میں کیے گئے سوالات کے جوابات اور ممکنہ حل بھی بتاتی ہے۔

ظفر الاعظم کے مطابق روایتی طور پر جدید ترقی کے دور میں مغرب کا غلبہ رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ترقی پذیر اور غربت میں پھنسے ممالک کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی ایک مسئلہ رہی ہے۔

“لیکن اب انٹرنیٹ کی وجہ سے معلومات اور تحقیق تک رسائی ماضی کے مقابلے میں بہت آسان ہو گئی ہے۔ آپ دیکھیں کہ بھارت کے دور افتادہ علاقے کے ایک رہائشی کو بھی اسی ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے جو دنیا کی اعلی ترین یونیورسٹی ہارورڈ میں طالب علموں کو حاصل ہے۔ “

مزید برآں، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب چین اور دوسرے ایشیا ئی ممالک میں ٹیکنالوجی ایجاد کی جا رہی ہے ۔ “میرے خیال میں اب ٹیکنالوجی کا حصول قدرے آسان ہوگا۔”

تاہم وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی بجائے خود ترقی نہیں لا سکتی جیسا کہ صنعتی انقلاب کے بعد ترقی کے دور سے اب تک ظاہر ہوا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی ان کی پالیسیوں پر منحصر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ “”ہمیں بہت سا کام کرنا ہوگا اور تعلیم جیسے اہم ترین شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے اپنے حالات کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال ممکن بنانا ہوگا۔”