اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھی سیاست کے خیمے میں

اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھی سیاست کے خیمے میں

اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھی سیاست کے خیمے میں
محمّد شہزاد بھٹی


کالم نگار (محمّد شہزاد بھٹی)اس وقت براعظم ایشیاء میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے، مہنگائی کی شدت کا اندازہ یوں کیجئیے کہ ایک عام مزدور کی مزدوری ابھی تک گاؤں، دیہات یا شہر میں ایک ہزار روپیہ یومیہ نہیں ہے اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں، روزمرہ ضرورت کی اشیاء مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں جس ریشو سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس ریشو سے آمدن نہیں بڑھ رہی ہے۔ آج بھی ایک مزدور اپنی ایک دن کی مزدوری سے اپنے چار پانچ افراد کی فیملی کو ایک دن کا کھانا کھلانے سے قاصر ہو چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے الٹا عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ یہ عالمی لہر کا نتیجہ ہے یورپ اور برطانیہ و امریکہ میں بھی مہنگائی کی لہر آئی ہے، مگر ایسے وقت میں موجودہ حکمران یہ کیوں نہیں بتاتے کہ پیٹرول مہنگا تو عالمی لہر کی وجہ سے ہوا ہے مگر پیٹرول کی قیمت خرید کیا ہے اور عوام کو کتنا منافع رکھ کر بیچا جا رہا ہے اور چینی کی دگنی تگنی قیمت کا عالمی لہر سے کیا تعلق ہے؟ اس ناقابل برداشت مہنگائی کے اصل  اسباب سراسر معاشی نہیں سیاسی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اس کی واحد ذمہ دار ہے اور وہ طبقات جو اس کی ایما پر حکومت کے ایوانوں میں براجمان ہیں۔ عسکری جتھے پالنے اور ان کی مسلسل سرپرستی کی وجہ سے ملک دہشت گردی کی آماجگاہ بن کر عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ فیٹف کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے مگر نئی سے نئی شدت پسند تنظیموں کو پیدا کرنے کا شوق اب بھی جاری ہے۔ عالمی سرمایہ دار کاروبار کے لیے یہاں کا رخ نہیں کر رہے۔ ملک کے اندر انڈسٹری تباہ، توانائی کی قلت اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بند ہو رہی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے اور سارا گزارا قرضے لے کر ہو رہا ہے اور لیے گئے قرضے پیداواری کاروباری مد میں خرچ ہونے کی بجائے فورسز اور غیر پیداواری مد میں خرچ ہو رہے ہیں۔ تھوڑے عرصے بعد ہی کسی نہ کسی مزائل کا تجربہ ہوتا ہے۔ سابق جرنل ر شاہد اپنی کتاب میں لکھ چکا ہے کہ عالمی منڈی سے مہنگے ہتھیار خریدے جاتے ہیں اور اس خریداری میں بھاری کمیشن وصول کیے جاتے ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں اور سرکاری ملازم ارب پتی بن رہے ہیں۔ ایک محکمے کو عضو معطل بنانے کے لیے اس کے مدمقابل دوسرا غیر ضروری محکمہ کھڑا کیا ہوا ہے جو ملکی معیشت پر اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ جیسا کہ ریلوے کے مقابلے میں این ایل سی، پولیس کے مقابلے میں رینجرز وغیرہ اور بہت سارے محکمے جن کی ملک و قوم کو کوئی ضرورت ہے نہ افادیت۔ جب قرضے ان اللوں تللوں میں خرچ ہوتے ہیں تو پچھلے قرضوں کا سود اور مزید خرچہ پٹھا چلانے کے لیے مزید قرضے اور مزید قرضوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی من پسند و بے رحم مزید شرائط اور ملکی و قومی اثاثے گروی رکھنے کے لیے گھر کے بچے کھچے مزید اثاثوں کی تلاش جاری ہے۔ مختلف انسانی المیوں پر بیرونی دنیا سے ملنے والی بھاری امداد تک ڈکار لی جاتی ہے اور اس پر سوال اٹھانے والوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ جمہوری سسٹم اور عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے کی ضد، اندرونی و بیرونی پالیسیوں سے سیاسی قوتوں کی مکمل بے دخلی و بیخ کنی نے اس ملک و قوم کو آج اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ملکی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی کاروباری سلطنت قائم کیے ہوئے ہے، جس کا نہ کوئی آڈٹ ہے نہ ٹیکس، الٹا اسے نقصان میں ظاہر کر کے مزید سبسڈی کی جبری وصولیاں، قرضے ملکی معاشی حیثیت سے بڑھ کر معیشت کو دیوالیہ ہونے کی حد تک لا چکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور اس کی طفیلی حکمران اشرافیہ اپنا پیٹ بھرے رکھنے اور اپنا اپنا گھر چلانے کے لیے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ یہ ہیں مہنگائی کی اصل وجوہات، جب تک اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھی سیاست کے خیمے میں گھسا رہے گا آئین و قانون کو اپنے پاوں تلے روندتا رہے گا داخلی و خارجی معاشی پالیسیاں یرغمال رہیں گی کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کے لیے کوئی سہولت پیدا کرنے سے قاصر رہے گی۔ عوامی زندگیاں جیتے جی جہنم کا ایندھن بنتی رہیں گی۔ بھوک ننگ کے خون خوار گدھ انسانی بستیوں پر منڈلاتے رہیں گے۔جس طرح آمدن سے زائد اثاثہ جات رکھنے والوں کے لیے قانون موجود ہے انکو سزا دی جاتی ان کو نا اہل کیا جاتا اسی طرح عوام کی فی کس آمدن سے زائد مہنگائی کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ انہیں بھی نا اہل کیا جانا چاہیے۔