اسامہ بن لادن کے ڈی کلاسیفائی ہونے والے کاغذات کیا کہانی سناتے ہیں؟

اسامہ بن لادن کے ڈی کلاسیفائی ہونے والے کاغذات کیا کہانی سناتے ہیں؟

این بی سی نیوز کی الزبتھ جرمینو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسامہ بن لادن کے ذاتی کاغذات اور دستاویزات کے جو نئے ترجمے کیے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 9/11 کے حملوں کے پیچھے اس کا مقصد صرف امریکیوں کو ہلاک کرنا ہی نہیں تھا، بلکہ امریکہ میں اس نوعیت کے احتجاج اور مظاہروں کے لے لوگوں کو اکسانا اور احتجاج کرانا بھی تھا، جیسے کے ویت نام کی جنگ کے دوران دیکھنے میں آئے تھے۔

یہ کاغذات سب سے پہلے 2011میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں بن لادن کی رہائش گاہ پر حملے کے دوران دریافت ہوئے تھے۔ اور 2017میں انہیں ڈی کلاسیفائی کیا گیا، یعنی ان کی خفیہ نوعیت کو ختم کردیا گیا کہ جو بھی چاہے ان کاغذات کو دیکھ سکے۔ لیکن وہ کاغذات غیر منظم تھے اور زیادہ تر ایسے تھے جن کا اس وقت تک ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ان کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کو مطلوب اس بدنام زمانہ دہشت گرد کے دماغ میں کیا تھا۔

اپنی نئی کتاب “The Bin Laden papers” میں مصنفہ اور اسلامک اسکالر نیلی لاحود نے بن لادن کی رہائش گاہ سے حاصل کردہ کوئی 6 ہزار صفحات پر مشتمل ذاتی نوٹس، خطوط اور جرائد کو دیکھا اور انہیں پڑھا۔ اور انہوں نے پروگرام’’ 60 منٹس‘‘ کی رپورٹر Shaeyn Alfonsi سے اس بارے میں بات کی کہ 9/11 کے حملوں کےلیے القاعدہ کے لیڈر کے ذہن میں کیا محرکات تھے۔

انہوں نے سی بی ایس کے پروگرام میں بتایا کہ بن لادن کا خیال تھا کہ امریکی عوام اسی طرح سڑکوں پر نکل آئیں گے جس طرح ویت نام کی جنگ کے دوران نکلے تھے، اور اپنی حکومت پر مسلم اکثریت والے ملکوں سے نکل آنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔

یہ ایک بہت انتہائی غلط اندازہ تھا۔ 2001 کے گیلپ پول کے مطابق 88 فیصد امریکیوں نے افغانستان میں فوجی کاروائی کی توثیق کی۔

گو وہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے میں بہت منظم تھے۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی جو کبھی ہو ہی نہیں سکے۔ لیکن جہاں تک بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ ہے ایسا لگتا ہے کہ بن لادن ان پر زیادہ دسترس نہیں رکھتے تھے۔ اور ان کے ذاتی کاغذات کے مطابق جب امریکی عوام جارج ڈبلیو بش کے پیچھے جمع ہو گئے تو کوئی ایک عشرے

بعد تک بھی وہ اپنی مایوسی پر قابو نہیں پاسکے تھے۔

لاحود کی کتاب کے مطابق انہوں نے 2010 میں اپنے ایک نائب کو لکھا کہ ویت نام کے نقصانات کےمقابلے میں افغانستان میں امریکی ہلاکتوں کی تعداد بہت کم ہے۔

نائین الیون کے بعد کے برسوں میں امریکی عوام تک رسائی کے لیے ان کی توجہ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ خطوط کے تازہ ترجموں کے مطابق انہوں نے القاعدہ کو اپنے تمام وسائل اس پر مرتکز کرنے کی ہدایت کی جس کو وہ امریکی قوت کا اصل سر چشمہ سمجھتے تھے، یعنی اسکے “عوام”۔

لاحود کا کہنا ہے کہ دہشت گرد لیڈر کا مقصد لوگوں کو اکسانا، امریکہ میں احتجاج کرانا اور اور امریکی عوام کو اپنی حکومت کے خلاف کرنا تھا۔ کیونکہ 2010 کے ایک خط کے مطابق وہائٹ ہاؤس، کانگریس اور پنٹاگان پر براہ راست دباؤ اسی وقت ڈالا جاسکتا ہے جب القاعدہ براہ راست امریکی عوام کو متاثر کرے۔

کاغذات کے مطابق بن لادن نائن الیون طرز کے حملوں کے لیے طیارے چارٹر کرنا چاہتے تھے، جن میں ریل کی پٹریوں کو ہدف بنایا جاتا اور بین الاقوامی آئل ٹینکرز کو اڑا دیا جاتا۔ بن لادن نے اس امید پر امریکہ کو اس کے سیکیورٹی کے احساس سے محروم کرنے کی کوشش کی کہ اس کے نتیجے میں امریکہ مشرق وسطی سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہو جائے گا۔

پھر 9/11 کے بعد کے برسوں میں بن لادن کے پاس دوسرے حملوں کے مُنصوبے بھی تھے۔ جن کا مقصد امریکی سرزمین پر لوگوں میں غصہ پیدا کروانا، اور اندرون ملک مخالفت کو ہوا دلوانا تھا۔لاحود نے اپنی کتاب میں 2005 کے ایک خط کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ جس میں بن لادن نے لکھا ہے کہ القاعدہ کو امریکہ کے اندر حملوں کو ترجیح دینی چاہئیے۔ لیکن یہ حملے صرف ان ریاستوں میں ہونے چاہئیں، جنہوں نے2004 کے انتخابات میں بش کو ووٹ دیا ہے۔ اس کے پانچ سال بعد انہوں نے اپنے نائبین کو مشورہ دیا کہ بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور میڈیا مہم بھی چلائی جائے جو امریکی ذرائع ابلاغ کے توسط سے نشر کی جائے۔

لاحود وضاحت کرتی ہیں کہ بن لادن ہمیشہ سے امریکیوں سے نفرت کرتے تھے۔ لیکن ان کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس طاقت کا ادراک تھا جو امریکی عوام کے پاس ہے۔