کیا آپ ڈارک ویب کے بارے میں جانتے ہیں؟

کیا آپ ڈارک ویب کے بارے میں جانتے ہیں؟

گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے وزیراعظم آفس کا ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش ہونے کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔

ٹوئٹر پر جاری پیغام میں فواد چوہدری نے لکھا کہ وزیراعظم آفس کا ڈیٹا جس طرح ڈارک ویب پرفروخت کے لیے پیش ہوا یہ سائبر سکیورٹی کےحالات بتاتا ہے، یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں خصوصاً آئی بی کی بہت بڑی ناکامی ہے۔

ڈارک ویب آخر ہے کیا؟

بنیادی طور پر انٹرنیٹ دو حصوں پر مشتمل ہے، اوپن ویب اور ڈیپ ویب،  پورے انٹرنیٹ کا صرف ایک فیصد اوپن ویب ہے یعنی وہ ہزاروں ویب سائٹس جنہیں ہم اور آپ معمول کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کا 99 فیصد حصہ ڈیپ ویب پر مشتمل ہے۔ 

ڈیپ ویب پر کمپنیوں، اداروں، اسکولوں، بینکوں وغیرہ کی داخلی ویب سائٹس ہوتی ہیں جن تک رسائی کے لیے ویب سائٹ کا مکمل پتہ، لاگ اِن اور پاس ورڈ چاہیے ہوتا ہے۔ 

ان میں ہوٹل بکنگ، آن لائن خریداری، میڈیکل ریکارڈز وغیرہ سے متعلق ڈیٹا بیسز ہوتے ہیں۔ اس ڈیپ ویب کے اندر ویب سائٹس کی ایک اور خفیہ دنیا آباد ہے جسے ڈارک ویب کہتے ہیں۔

یہ انٹرنیٹ کا وہ حصہ ہے جسے روایتی سرچ انجنوں کے ذریعے ایکسس نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیٹ کے اس خفیہ حصے تک رسائی صرف خاص سافٹ ویئر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس خاص سافٹ ویئر کی وجہ سے ڈارک ویب پر موجود ویب سائٹس چلانے اور انہیں استعمال کرنے والے گمنام رہ سکتے ہیں۔ 

یہ سافٹ ویئر نہ صرف یوزر بلکہ ویب سائٹ آپریٹر کی شناخت کو خفیہ رکھتا ہے۔ ویسے تو ڈارک ویب پر جانا غیر قانونی نہیں ہے اور یہ سنسرشپ اور حکومتی کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے آزاد کمیونیکیشن کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ڈارک ویب کی اکثریتی ویب سائٹس پر موجود مواد اور مصنوعات غیر قانونی ہیں اور یہ عوام، کمپنیوں اور معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

 ڈارک ویب عموماً غیر قانونی آن لائن سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جیسے کہ اسلحہ اور منشیات فروش وغیرہ کے لیے لیکن ڈارک ویب کو براؤز کرنے میں خطرہ بھی ہے، احتیاط نہ برتی جائے تو بہت سے خطرناک کمپیوٹر وائرس ڈاؤن لوڈ ہو سکتے ہیں اور آپ کا سسٹم ہیک کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور وفاقی وزرا کے اجلاس کی آڈیو لیک ہو ئی جس میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنماؤں کی آوازیں ہیں۔

لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر ن لیگی رہنما اور وفاقی وزرا پی ٹی آئی کے استعفوں پر بات کر رہے تھے۔