تاریخی قطب مینار کی جگہ کھدائی کے مبینہ احکامات، بھارت میں نئی بحث چھڑ گئی

تاریخی قطب مینار کی جگہ کھدائی کے مبینہ احکامات، بھارت میں نئی بحث چھڑ گئی

بھارت میں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کا تنازع ابھی حل نہیں ہوا تھا کہ دہلی میں واقع تاریخی قطب مینار کا تنازع ایک بار پھر گرم ہو گیا ہے۔ہندو قوم پرست تنظیم وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب مینار وشنو استمبھ (وشنو ستون) ہے جہاں کبھی مندر ہوا کرتا تھااس لیے وہاں مندر کو بحال کیا جائے۔

سیکریٹری وزارتِ ثقافت گووند موہن نے تین تاریخ دانوں، محکمۂ آثار قدیمہ کے چار اہلکاروں اور بعض ریسرچرز کے ہمراہ ہفتے کو قطب مینار کے احاطے کا دورہ کیا تھا اور وہاں انہوں نے دو گھنٹے گزارے تھے۔ اس وفد نے قطب مینار کے احاطے میں موجود مسجد قوت الاسلام کا بھی دورہ کیا تھا۔

اس دورےکے بعد وزارتِ ثقافت کی جانب سے محکمۂ آثار قدیم کو اس کی کھدائی کا حکم دینے کی خبریں اتوار کے روز میڈیا میں گردش کرنے لگیں۔

نشریاتی ادارے نیوز 18 کے مطابق گووند موہن کو بتایا گیا کہ قطب مینار کے احاطے میں 1991 کے بعد کھدائی نہیں کی گئی۔ اس پر متعلقہ وزارت نے محکمۂ آثار قدیمہ کو قطب مینار سے 15 میٹر دور کھدائی کرنے اور اس کی رپورٹ وزارت میں جمع کرنے کی ہدایت کی۔

گووند موہن کے اس دورے کے بعد ذرائع ابلاغ نے یہ رپورٹ کرنا شروع کر دیا کہ قطب مینار کو قطب الدین ایبک نے تعمیر کرایا تھا یا راجہ وکرمادتیہ نے؟ اس بات کا پتا لگانے کے لیے محکمۂ آثارِ قدیمہ کے اہلکاروں کو اس کی کھدائی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ خبریں ابھی مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہی ہوئی تھیں کہ وزیرِ ثقافت جی کشن ریڈی نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اس سلسلے میں نہ تو کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی حکم جاری ہوا ہے۔

دوسری جانب محکمۂ آثار قدیمہ کی جانب سے اس بارے میں اب تک کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔

کئی ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار کے احاطے میں بہت سے ہندو اور جین مندر واقع تھے جنہیں مسمار کر دیا گیا تھا۔
کئی ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار کے احاطے میں بہت سے ہندو اور جین مندر واقع تھے جنہیں مسمار کر دیا گیا تھا۔

قبل ازیں نیشنل مانومنٹ اتھارٹی کے سینئر اہلکاروں نے محکمۂ آثار قدیمہ کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ قطب مینار کے احاطے میں واقع مسجد قوت الاسلام کے نزدیک موجود گنیش کی دو مورتیوں کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے کیوں کہ وہاں مورتیوں کو باعزت طریقے سے نہیں رکھا گیا ہے۔

نیشنل مانومنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ترون وجے نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ قطب مینار کے احاطے میں مورتیوں کو باعزت طریقے سے نہ رکھے جانے کا معاملہ بذریعہ خط انہوں نے گزشتہ برس محکمۂ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کے سامنے اٹھایا تھا لیکن اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

انگریزی روزنامہ ‘انڈین ایکسپریس’ نے اس معاملے سے باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کو مذکورہ مورتیوں کی تصویر کشی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ سیاحوں کو وہاں موجود متعدد ہندو اور جین مورتیوں کے بارے میں سائن بورڈز کے ذریعے مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔

کئی ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار کے احاطے میں بہت سے ہندو اور جین مندر واقع تھے جنہیں مسمار کر دیا گیا تھا۔ اس خیال کی حامی تنظیمیں قطب مینار کا نام تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہیں۔

ایک غیر معروف ہندو تنظیم ‘یونائیٹڈ ہندو فرنٹ’کے کارکنوں نے 10 مئی کو قطب مینار کے احاطے کے باہر جمع ہو کر ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا اور اس کا نام وشنو استمبھ رکھنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر کم از 30 کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

تنظیم کے بین الاقوامی کارگزار صدر بھگوان گوئل کے مطابق قطب مینار کو ایک ہندو راجہ وکرما دتیہ نے تعمیر کرایا تھا۔ بعد میں قطب الدین ایبک نے اس کا سہرا اپنے سر لینے کے لیے اس کا نام قطب مینار رکھ دیا۔ بھگوان گوئل کے دعوے کے مطابق اس احاطے میں 27 مندر تھے جنہیں قطب الدین ایبک نے توڑا تھا۔

قطب مینار کے احاطے میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کے نصب ایک کتبے پر تحریر ہے "یہ مسجد 27 ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی او اس کا مقصد لوگوں کو اسلام کی طاقت کا احساس کرانا ہے۔"
قطب مینار کے احاطے میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کے نصب ایک کتبے پر تحریر ہے “یہ مسجد 27 ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی او اس کا مقصد لوگوں کو اسلام کی طاقت کا احساس کرانا ہے۔”

اس سے قبل 10 اپریل کو وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے قطب مینار کے وشنو استمبھ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کے مطابق اس عمارت کی تعمیر توڑے گئے مندروں کے ملبے سے ہوئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1993 میں قطب مینار کو عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔

ونود بنسل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قطب مینار کے احاطے میں کبھی ہندو مندر ہوا کرتے تھے اس لیے انہیں اپنے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کی اجازت ملنی چاہیے اور جن 27 مندوروں کو ماضی میں توڑا گیا انہیں بحال کیا جائے۔

قطب مینار کے احاطے میں مندوروں کی موجودگی کے حوالے سے ونود بنسل نے وہاں نصب محکمۂ آثار قدیمہ کے اُس کتبے کا حوالہ دیا جس پر لکھا ہے “یہ مسجد 27 ہندو مندروں کو توڑ کر بنائی گئی او راس کا مقصد لوگوں کو اسلام کی طاقت کا احساس کرانا ہے۔”

تاریخی قطب مینار کی جگہ کھدائی کے مبینہ احکامات، بھارت میں نئی بحث چھڑ گئی

دہلی کے محکمۂ سیاحت کی ویب سائٹ کے مطابق 73 میٹر اونچے قطب مینار کی تعمیر دہلی کے آخری ہندو حکمراں کی شکست کے بعد مسمار کیے جانے والے 27 مندروں کے ملبے سے ہوئی ہے۔

ونود بنسل کہتے ہیں وہ قطب مینار کا نام بدلنے کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ تاریخ کو صحیح تناظر میں رکھنا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق قطب مینار کے احاطے میں موجود جس عمارت کو مسجد قوت الاسلام کہا جا رہا ہے وہ مسجد نہیں اور نہ ہی اس کی شکل مسجد جیسی ہے۔ان کے بقول مسمار شدہ مندروں کے ملبے کو ایک کے اوپر رکھ کر ایک عمارت کی شکل دی گئی ہے جسے مسجد کا نام دیا گیا ہے اور نہ ہی وہاں نماز ہوتی ہے۔

محکمۂ آثار قدیمہ کے ایک ریجنل ڈائریکٹر دھرم ویر شرما نے 18 مئی کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار کی تعمیر راجہ وکرما دتیہ نے کرائی تھی اور یہ ایک شمسی تجربہ گاہ تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاریخ کو مبینہ طور پر صحیح تناظر میں رکھنے کی کوشش ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور تاریخی عمارتوں سے متعلق جو تنازعات پیدا کیے جا رہے ہیں اس کا مقصد 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانا ہے۔