نیوزی لینڈ کی خاتون صحافی کو طالبان سے کیوں مدد مانگنی پڑ گئی؟

نیوزی لینڈ کی خاتون صحافی کو طالبان سے کیوں مدد مانگنی پڑ گئی؟

ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کی ایک حاملہ صحافی کو اپنے ہی ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے، جس کے بعد انھیں افغانستان میں پناہ لینے کے لیے طالبان سے مدد مانگنی پڑ گئی۔

تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ کی ایک حاملہ صحافی شارلٹ بیلس کا کہنا ہے کہ انھیں مدد کے لیے طالبان کی طرف رجوع کرنا پڑا ہے، اور اب وہ افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں، جب کہ ان کے ملک نے انھیں کرونا وائرس کے سخت

قرنطینہ قانون کی وجہ سے واپس آنے سے روک دیا ہے

ہفتے کو نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں شائع اپنے خط میں صحافی شارلٹ بیلس نے لکھا کہ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے طالبان سے خواتین کے ساتھ ان کے سلوک پر سوال کیا تھا اور اب وہ وہی سوالات اپنی حکومت سے پوچھ رہی ہیں۔

نیوزی لینڈ کی خاتون صحافی کو طالبان سے کیوں مدد مانگنی پڑ گئی؟

بیلس نے اپنے کالم میں لکھا کہ جب طالبان آپ کو (ایک ایسی حاملہ جس نے شادی بھی نہیں کی) ایک محفوظ پناہ گاہ کی پیش کش کرتے ہیں، تو سمجھیں کہ آپ کی صورت حال کتنی نازک ہو چکی ہے۔

واضح رہے کہ جب گزشتہ برس وہ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ منسلک تھیں، تو انھوں نے الجزیرہ کے لیے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو رپورٹ کیا تھا، انھوں نے بین الاقوامی توجہ اس وقت حاصل کی جب طالبان رہنماؤں سے انھوں نے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ان کے سلوک کے بارے میں سوال کیے تھے۔

شارلٹ بیلس اس وقت کابل میں اپنے پارٹنر کے ساتھ مقیم ہیں، انھوں نے افغانستان سے نکلنے کے لیے نیوزی لینڈ کے حکام سے رابطہ کیا تھا لیکن ان کی درخواستیں مسترد ہوئیں، اپنے خط میں بیلس نے لکھا کہ وہ ستمبر میں قطر واپس گئی تھیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے پارٹنر سے حاملہ ہے جو نیویارک ٹائمز کے لیے بطور فوٹوگرافر کام کرتے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ قطر میں کسی غیر شادی شدہ خاتون کا حاملہ ہونا غیر قانونی ہے، تب انھوں نے طالبان کے ایک سینیئر رکن سے رابطہ کیا کہ وہ اور جم ہائیلبروک شادی شدہ نہیں، لیکن ان کے ہاں بچہ ہونے والا ہے، وہ نیوزی لینڈ نہیں جا سکتی، اگر وہ کابل آ جائیں تو کیا انھیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟ اس پر طالبان نے کہا کہ آپ آ سکتی ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

بیلس کے مطابق انھوں نے الجزیرہ سے نومبر میں استعفیٰ دیا تھا، جس کے بعد وہ اپنے پارٹنر کے ساتھ ان کے ملک بیلجیئم گئیں، لیکن وہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتی تھیں کیوں کہ وہ وہاں کی رہائشی نہیں تھیں اور ان کے پاس اگر کسی دوسرے ملک کا ویزہ تھا تو وہ افغانستان تھا۔

خیال رہے کہ نیوزی لینڈ واپس آنے والے شہریوں کو فوج کے زیر انتظام قرنطینہ کے لیے مختص ہوٹلوں میں آئسولیشن کے دن گزارنے پڑتے ہیں، تاہم وطن واپس آنے والے لاکھوں شہری اب بھی جگہ ملنے کا انتظار کر رہے ہیں، اور بیرون ملک سنگین حالات میں پھنسے شہریوں کی کہانیاں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن اور ان کی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہیں